Mirpur News

میرپور (عدالت نیوز)ڈرگ مافیا نے ایک اور نوجوان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا ڈیڈ باڈی جھاڑیوں سے برآمد ایف ون کے رہائشی رضا ولد فاروق قادری کی لاش سی ون سے ملی بازو میں انجیکشن لگا ہوا تھا پولیس تھانہ تھوتھال نے ضروری کارروائی کے بعد ڈیڈ باڈی ورثا کے حوالے کر دی تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سیکٹر سی ون ورکشاپس کے قریب واقعہ نالے میں جھاڑیوں سے ایک نوجوان کی ڈیڈ باڈی برآمد ہوئی جس کو پولیس تھانہ تھوتھال نے ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچایا تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ نوجوان کا نام رضا علی ولد فاروق قادری ساکن سیکٹر ایف ون ہے ابتدائی طور پر نوجوان نشے کا عادی بتایا جا رہا ہے مرنے والے نوجوان کے بازو میں انجیکشن لگا ہوا تھا والد نے ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچ کر ڈیڈ باڈی کو شناخت کیا بعد ازاں پولیس نے ابتدائی کارروائی کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کر دیا۔

بے لگام موت کے سوداگر تحریر راجہ شفاقت۔۔۔۔ گزشتہ روز سیکٹر سی ون کے قریب جھاڑیوں سے ایک نوجوان کی لاش برآمد ہوئی ابتدائی طور پر نوجوان کے بازو میں انجیکشن لگا ہوا تھا جو کہ شاید انجکشن لگاتے ہوئے ہی جان بحق ہو گیا پولیس نے اطلاع ملتے ہی موقع پر پہنچ کر اس کی ڈیڈ باڈی کو ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچایا بعد ازاں اس کے برسات سے رابطہ ہوا جنہوں نے پوسٹ مارٹم کے بغیر ہی ڈیڈ باڈی کو گھر لے جانے کا اظہار کیا جس پر پولیس نے ضروری کارروائی کے بعد ڈیڈ باڈی کو ان کے حوالے کر دیا مگر یہاں پر ایک سوال جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ ڈرگ مافیا نے ایک اور نوجوان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا بازو میں انجیکشن لگا ہوا تھا پولیس تھانہ تھوتھال نے ضروری کارروائی کے بعد ڈیڈ باڈی ورثا کے حوالے کر دی مگر یہ واقعہ بہت سارے سوالات چھوڑ گیا اس سے قبل بھی اس طرح کئی نوجوانوں کی اموات ہو چکی ہیں مگر اس بے حس معاشرے میں صرف ابتدائی کارروائی کے بعد مرحومین کو دفنا دیا جاتا ہے اور مٹی ڈالنے کے بعد معاملے پر بھی مٹی ڈال دی جاتی ہے سوال یہ ہے کہ مرنے والا نوجوان جو کسی کا بیٹا تھا کسی کا بھائی تھا یا کسی کا خاوند بھی ہو سکتا ہے اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے نوجوان کے بازو میں لگا ہوا انجیکشن جو کہ یقینا نشے کا تھا ہو سکتا ہے یہ اس نے کہاں سے خریدا کیا ڈرگ انسپیکٹر اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں آخر اس طرح کے موت کے انجیکشن کون سے میڈیکل سٹوروں پر فروخت ہو رہے ہیں یقیناً میرپور کے اندر ہی سے مل رہے ہیں ان کے خلاف کون کارروائی کرے گا اور ضروری سوال یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کو اس طرح نشے کی جانب کون سے خفیہ ہاتھ ہیں جو لے کر جا رہے ہیں ان کے اوپر کون ہاتھ ڈالے گا کیا اس کے لیے بھی کوئی محمد بن قاسم آئے گا اسی طرح کے بے شمار نوجوان جو ابھی بھی نشے کی لت میں اور مختلف قسم کے نشوں کے عادی ہیں اور اپنی زندگیاں اور والدین کا پیسہ تباہ کر رہے ہیں اور نشے کی وجہ سے مختلف جرائم میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں اور ایک کے بعد ایک موت کے منہ میں جا رہے ہیں مگر یہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان موجود ہے کیا کبھی نے کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح جو اموات ہو رہی ہیں ان کا سد باب کس طرح کیا جائے اور آنے والی نسلوں کو کس طرح محفوظ بنایا جائے مگر شاید یہ ضروری نہیں سمجھتے کیونکہ جو آج مر گیا وہ ان کا بیٹا نہیں تھا وہ تو کسی دوسرے کا بیٹا تھا اس طرح کے بے شمار کیس اس سے قبل بھی ہو چکے ہیں میرپور کا قدیمی ویو پوائنٹ پارک جہاں پر آج بھی چلے جائیں تو آپ کو جگہ جگہ پر خالی سرنجز پڑی ہوئی ملیں گی جو کہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ میرپور میں نشے کے انجیکشن بآسانی مل جاتے ہیں مگر ہماری پولیس بھی اس طرح کے واقعات کو نارمل روٹین میں ڈیل کرتی ہے اور اس طرح کی فائلوں کو کچھ ہی دنوں میں الماری میں ڈال کر بند کر دیا جاتا ہے مگر بے حسی یہ ہے کہ جن کے بچے اس طرح گھناونے کام میں ملوث ہیں اور بہت سارے والدین ایسے بھی ہیں جن کو پتہ ہے کہ ہمارے بچے نشے کی لت میں مبتلا ہیں مگر وہ پھر بھی ان کے سد باب کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے اور اسی طرح سینکڑوں نوجوان موت کی وادی میں جا چکے ہیں اس طرح کے واقعات کے ذمہ دار ڈرگ مافیا جو کہ نوجوان نسل کے قاتل ہیں اور وہ آزادی کے ساتھ موت کا رقص جاری رکھے ہوئے ہیں مگر ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس فرضی کارروائیوں میں بلے بلے حاصل کرنے میں مصروف ہیں 20 گرام 50 گرام یا 100 گرام آئس،چرس گردہ یا دو چار شراب کی بوتلیں پکڑ کر کبھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ یہ نشہ بیچنے والے کے پیچھے جو بڑے ڈیلر بیٹھے ہوئے ہیں ان کو پکڑا جائے تاکہ برائی کا جڑ سے خاتمہ کیا جا سکے ستم ظریفی یہ ہے کہ نشہ بیچنے والوں کو جب پولیس پکڑتی ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ کچھ ہی دنوں بعد وہ لوگ ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں اور پھر یہ مکروہ دھندا شروع کر دیتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے سماج دشمن عناصر جو کہ نوجوانوں کی رگوں میں زہر گھول رہے ہیں ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور ان کا قلع قمع کیا جائے نہیں تو وہ وقت دور نہیں کہ اس طرح کہ اور کتنے رضا علی ہماری آنکھوں کے سامنے قبر میں اتر جائیں گے اور ہم صرف افسوس ہی کرتے رہ جائیں گے تھوڑا نہیں زیادہ سوچیے۔۔

Leave a Comment