Mirpur News

بشکریہ محمد رمضان چغتائی
فرخندہ بیٹی سے شرمندہ معاشرہ
ایک ایسی بہادر بیٹی عقل دانش سے اپنی عزت بچائی اور گھٹیا نظام کو ننگا کر دیا
ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اپنی غلطی گناہ پر نادم شرمندہ ہونے کی بجائے الزام دوسروں پر تھوپ دیتے ہیں اس کے لئے کرائے کے ٹٹو مردار خور ہر وقت دستیاب رہتے ہیں ملزم عمران کی گرفتاری کے بعد تمام حقائق سامنے آگئے
واقعہ 20 فروری کو ہوا
21 فروری کو تمام آڈیو ثبوت آزاد کشمیر پولیس کی کمانڈ کرنے والے انسپکٹر جنرل پولیس کے پاس پہنچ گئے
آئی جی پولیس نے ڈی آئی جی میرپور
ایس ایس پی میرپور سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کاروائی کے احکامات دئیے
بے یار مدد گار فرخندہ جو اپنے مکان کے قبضہ کو چھڑانے کے لئے یہاں موجود ہے وہ یہاں کے قانون اور اردو زبان سے ناواقف ہے بڑی مشکل سے پہاڑی میرپور زبان بولتی ہے
اس کے ساتھ قانون کے محافظ نے جو سلوک کیا جس طرح وہ اپنے ایک ایسے مکان میں لے کر جو اس کی ایک ایسی رہائش گاہ ہے جو اس نے اپنے ایسے مشاغل کے لئے بنا رکھی نجانے کتنی عورتوں کو وہ شکار بنا چکا ہو گا کہ اس نے دیدہ دلیری سے ایک لڑکی بٹھایا پستول سامنے رکھا اور شراب کی بوتل ٹیبل پر سجا لی اور اس لڑکی کو جو خالصتا دین پر عمل پیرا صوم صلوت کی پابندہے وہ کہتی ہے کہ میں نماز پڑھتی ہوں نعت پڑھتی ہوں اس کو کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ بار بار اپنے کیس اور مکان کی بے دخلی کا مطالبہ کرتی ہے ملزم کا تقاضا کچھ اور وہ ساری گفتگو جو ریکارڈنگ کی شکل میں آئی جی ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کے پاس پہنچ جاتی ہے
جس انکوائری شروع ہو جاتی ہے انکوائری کے اس کھیل کے ساتھ لڑکی کے عزیز اقارب ڈال کر اور اس کا ایک رشتہ دار جو آنٹی کرپشن میں سب انسپکٹر محبوب ہے وہ حرام خور دلالی بے غیرتی کی تمام کوشش کے بعد وردی کا رعب دبدبہ بھی دکھاتا ہے کیس کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ملزم عمران بھی اپنے دوست احباب کے ذریعے کوشش کرتا ہے برٹش لڑکی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ بھی چاہتی ہے وہ چاہتی ہے کہ وہ میڈیا تک معاملہ نہ جائے اس کی اپنی اپنے خاندان کی بد نام ہوگی تین چار دن جب اس کو علم ہوتا ہےکہ ان تلوں میں تیل نہ ہے وہ میڈیا پرسن سےرابطہ کرتی ہے میڈیا پرسن نے تھانیدار ملزم کا نام لئے بغیر فرخندہ کا نام لئے بغیر ایک وی لاگ کیا جس کے سول سوسائٹی کے اندر ایک ارتعاش پیدا ہوا غیرت کا سونامی آگیا
دوسری طرف انسپکٹر کے چند حواری لڑکی کی کردار کا سامان بناتے ہوئے محاذ آرائی کھڑی کر دیتے ہیں کہ منشیات فروش کی سازش ہے چال ہے بقول ایس ایس پی میرپور کہ ملزم پہلے دن ہی انکوائری کا سامنا کرنے نہیں
فرخندہ کو انصاف ملنے کی بجائے اس کردار کشی کی جاری ہو جاتی ہے کچھ عقل کے اندھے کچھ نو سر باز کچھ منشیات کے عادی کچھ منشیات فروش طوفان بد تمیزی کھڑی کر دیتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ جھوٹ اتنا بولو کے سچ دفن ہو جائے
بدبو دار نظام کے بد بو دار چہروں کو نہ اپنی ماں کا خیال آیا نہ بیٹی بہن کا کوئی کہتا ہے انکوائری مکملُ نہیں کوئی کہتا ہے پولیس والا بڑا ایماندار ہے نجانے کیا کیا بکواسات بکتے ہیں فرخندہ کا کسی کو نام تک نہیں پتہ نہ اس کی ذات برداری نہ گھر کا اتہ پتہ مگر وہ اپنی بیٹی جان کر اس حمایت کرتے تو ان کی کردار کشی کے لئے چند کرائے کے ٹٹو ان کی کردا ر کشی شروع ہو جاتی ہے ان گندے لوگوں کے گندے وار سے پریشان وہ لوگ ہیں جو نہیں جانتے معاملہ کیا تھا اس دوران روتی سسکتی فرخندہ کشمیر پریس کلب پہنچ جاتی ہے سب سے پہلے کلمہ طیبہ پڑھ کر وہ کہتی ہے کہ میرا تعلق کسی کے ساتھ نہ ہے نہ اس کو پڑھایا گیا جوں جوں وہ اپنا بیان کرتی ہے کچھ دل میں خون کے آنسو روتے ہیں کچھ کی آنسو سے پانی بہتا ہے ایک ایک لفظ سچا سامنے انے پر سسکیاں بھی سننے کو ملتی ہیں فرخندہ کی میڈیا کوریج کے بعد بعض ڈھیٹ اپنی کاروائی نہیں روکتے اور الزامات جاری رکھتے ہیں پھر ایک گھسی پٹی ایف آئی آر سامنے اتی ہےملزم کی قبل از گرفتاری کی بات سامنے اتی ہے حکومت پولیس خاموش ہے اعصابی جنگ ہارنے کے بعد فرخندہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر شرمندہ ہو کر ملزم کو گرفتار کرنے کی خبر سنائی جاتی ہے اور فرخندہ موقف درست اور ملزم کے موقف کی نفی کی جاتی ہے ہم کون لوگ ہیں جن کے ضمیر مر چکے ہیں پانچ دس گرام منشیات پکڑنے جیب تراشی میں پکڑے جانے والوں کے فوٹو جاری کرنے والے آج اس ملزم کی گرفتاری کا فوٹو کیوں جاری نہیں کر رہےہیں جس کی وجہ ریاست کا ہر فرد شرمندہ ہے
قسط ۱
جو

Leave a Comment